Add To collaction

خاموش محبت

ردا اپنی ماں کے ساتھ آنکھوں کے ڈاکٹر کے کلینک پہ  بیٹھی تھی، ردا کی آنکھیں رو رو کے تھک گئی تھیں، سوجھے ہوئے  اور سرخ پپوٹے یہ بتا رھے تھے کہ ردا پچھلے کئی دنوں سے مسلسل آنکھوں کو نمدار کر رہی ہے، ردا کی ماں کو تو اس بات کی خبر تھی کہ ردا کے راتوں کو مصلّے بچھا کے ہاتھ اٹھا کر زارو قطار رونے کی کیا وجہ ہے لیکن اس کی ماں کو یہ فکر تھی کہ یہی سوال اگر ڈاکٹر نے پوچھا کہ اس کی بیٹی کو کیا پریشانی ہے کہ وہ مسلسل روتی رہتی ہے تو کیا بتائے گی، کلینک پہ بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے ردا کی ماں مختلف بہانے سوچ رہی تھی کہ جب بھی ڈاکٹر یہ سوال کرے گا تو اسے کیا بتانا ہے، خیر جب ڈاکٹر نے نظر دیکھی تو  ردا کی ماں کو اس کیفیت سے نکالنے کی تاکید کی، ڈاکٹر نے یہی کہا کہ نظر کا دھندلاپن عارضی ہے اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں پریشان بالکل نہ ہوں، جب آپ ی بچی اس جذباتی کیفیت سے نکلے گی تو وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گی، پوری کوشش رکیں بچی کی کونسلینگ کریں تاکہ آپ کی بچی نارمل زندگی کی لوٹ سکے، فی الحال اس کی نظر کمزور نہیں ہے مسلسل رونے اور آنسو بہانے سے یہ کیفیت ہے لیکن اگر آپ بچی کی رہنمائی کر کے اس کو اس کیفیت سے نکال لاتے ہیں تو پھر پریشانی کی کوئی بات نہیں، ردا  کی عمر بھی کوئی  اکیس سال تھی، ڈاکٹر نے بھی یہی مشورہ دیا کہ بچی کی عمر کم ہیں اس عمر میں بصارت کے مسائل نہیں ہوتے، جو کچھ بھی ابھی مسئلہ چل رہا ہے وہ صرف عارضی ہے اور تھوڑی سی کونسلنگ سے ٹھیک ہو سکتا ہے، لیکن ڈاکٹر کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ بچی کیساتھ حقیقت میں مسئلہ ہے کیا؟ خیر ردا اپنی ماں کے ہمراہ گھر لوٹی، رستے میں ماں بیٹی جیسے ایک دوسرے سے خفا ہوں کوئی بات نہ کی، جوں ہی گھر پہنچے ردا نے اپنی بڑی بہن کیساتھ بھی کوئی بات نہ کی وہ سیدھی  اپنے کمرے میں گئی اور چارپائی پہ لیٹ گئی،  اپنے گلے میں ڈالے نیکلس کیساتھ لگے نگینے کو کھول کر ایک تصویر کو چوما ، جوں ہی  تصویر کو چوما تو ردا کی آنکھوں سے پھر آنسو رواں ہو گئے، گال پر آنسو کی لائینیں نمایاں ہو گئیں، ادھر ردا کی ماں اس سارے ماجرے سے بے خبر صحن میں پریشانی کی حالت میں بیٹھی تھی، 

اتنی دیر میں  ردا کی بڑی بہن ریحا بھی آ گئی ریحا قامت میں ردا سے بڑی تھی اور تھوڑی موٹی بھاری بھی تھی  ، ریحا نے جب اپنی ماں ک پریشان دیکھا تو غصے سے آگ بگولہ ہو گئی کیونکہ ریحا پہلے بھی ردا کو منع کرتی رہی ہے کہ اپنے آپ کو عشق کے چکر سے باہر نکالو یہ اچھا نہیں ہے، ریحا چونکہ ردا کی طرح اتنی پرکشش بھی نہیں تھی اس کی شخصیت پہ کچھ کچھ مردانہ رنگ بھی تھا، اسے نہ تو کسی نے چاہا تھا اور نہ ہی کبھی کسی کی محبوبہ ہونے کا خیال آیا اسے، اس نے خود کو عشق کے رپھڑے سے بالکل الگ کیا ہوا تھا یوں کہہ لیں کہ اس کو عشق پہ یقین ہی نہیں تھا، وہ اس کو ایک فضول ناٹک سمجھتی تھی، اس کے دل میں یہی تھا کہ جہاں والدین نے شادی کی وہ چپ چاپ قبول کر لے گی وہ کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کرے گی، اس کو شادی سے پہلے یہ سب خود کو نئی الجھنوں اور مصیبتوں میں ڈالنے کے مترادف لگتا تھا، اسی وجہ سے وہ کسی محبت، پیار اور عشق پہ شادی سے پہلے یقین نہیں رکھتی تھی، اس کا کچھ کچھ رجحان مذہب کی طرف بھی تھا ، ردا اور ریحا اگرچہ دونوں بہنیں تھیں لیکن دونوں کی شخصیات بالکل مختلف تھیں، ردا پتلی تھی لیکن اتنی بھی نہیں کہ کمزور لگے،لہجے میں بھرپور نسوانیت، حسِ مزاح زبردست، جب بھی ہستی تو زور سے قہقہہ لگا کے ہستی، جیسے کوئی حسینائی قہقہہ گلاب کے پھولوں کی بارش کا موجب بن گیا ہو، ردا بہت پراعتماد، بہت خوب صورت  اور کسی بھی محفل کی جان تھی، ریحا کے برعکس ردا کی اگر کوئی تعریف کرتا تو اسے اچھا لگتا وہ اس سے تشفی پاتی، اس کو موسیقی، شاعری اور ادب کی دیگر صنفوں سے بے پناہ محبت تھی، کوئی لڑکا خوبصورت نظر آتا تو ضرور اس کے دل میں شگوفے پھوٹتے،  معاشرے کی پابندیاں ضرور تھیں لیکن وہ چاہتی تھی کہ اس کو ٹوٹ کر چاہے، اس کو شادی سے پہلے عشق کرنے اور پھر نکاح کر کے اس کو مستقل اور مقدس تعلق میں بدل لینے سے کوئی عار نہیں تھا، حسن توجہ کا طالب ہوتا ہے کے مصداق ردا بھی چاہتی تھی کہ اسے چاہا جائے،  بات ہو رہی تھی کہ ریحا نے جب ماں کو پریشان کو دیکھا تو سیدھی ردا کے کمرے میں  چلی گئی، ریحا غصے میں تھی جوں ہی کمرے میں داخل ہوئی تو بولی کہ کیا تم نے عشق کا ڈرامہ لگایا ہوا ہے یہ ڈرامے ختم کرتی ہو کہ تمہیں انسان بنایا جائے لیکن ردا نے یہ سب خاموشی سے سن لیا کوئی جواب نہ دیا اتنے میں ریحا کی نظر ردا کی آنکھوں اور گال پہ پڑی جو آنسوؤں سے تر تھیں تو اسے اور غصہ آ گیا اور ردا کو جوڑے سے پکڑ کر بٹھا دیا، اور جھنجھوڑ کے بولی کہ ردو تم اپنے عشق کو ترک کر دو ورنہ تمہیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا، جتنی جلدی ممکن ہو سکے یہ ناٹک چھوڑ دو، اگر تمہاری وجہ سے خاندان کی عزت کو کچھ ہوا تو تمہیں جان سے مارنے سے بھی ہم گریز نہیں کریں گے، جتنی جلدی سدھر سکتی ہو بس سدھر جاؤ نہیں تو مرمت کے لیے تیار ہو جاؤ، تمہیں کئی دفعہ بتایا ہے کہ بندے کی پتر بن تُو ہے سمجھتی ہیں نہیں کس زبان میں تمہیں سمجھائیں بول کس زبان میں سمجھائیں اس کے ساتھ ہی جورے کو جھٹکا دے کر ریحا نے ردا کو واپس تکیے پہ پھینک دیا، 

ریحا واپس صحن میں آئی اور اپنی امی کو کہا کہ امی اس لیلٰی کا جلدی کوئی حل نکالو ورنہ میں اس کو انسان بنا دوں گی مجھ سے یہ روز روز کے ڈرامے نہیں دیکھے جاتے، اس کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ اگر یہ بات باہر نکلی تو ہماری عزت کا کیا بنے گا، ہمارے ابو اتنے شریف انسان ہیں دونوں بھائیوں نے  کبھی کسی سے کوئی لڑائی نہیں کی کبھی کسی کی بیٹی سے کچھ غلط نہیں کیا پتہ نہیں ردو کی بچی کیا کرنا چاہتی ہے، یہ سارے خاندان کی ناک کٹوائے گی پھر اس کو سکون ہو گا، امی نے یہ سب سن کے کہا کہ جس نیاز کے بچے کیساتھ یہ شادی کرنا چاہتی ہے بھول جائے میں کبھی بھی نیاز کیساتھ اس کی شادی نہیں کروں گی، ریحا اس کو بتادو اگر اس نے اپنی حالت نہ بدلی اگر اس نے نیاز نیاز کی رٹ نہ چھوڑی تو میں اس کی شادی گاؤں کے کسی بوڑھے کیساتھ کردوں گی،  یہ کہہ کر امی ردا کے کمرے میں گئی اور واشگاف الفاظ  میں بول دیا کہ اگر تم نے نیاز کی ضد نہ چھوڑی تو میں صوبیدار  پھجے کیساتھ تمہاری شادی کر دوں گی وہ ویسے بھی   بیوی کی تلاش میں ہے، ردا غم سے نڈھال اٹھی اور امی کے پاؤں پکڑ کے بیٹھ گئی اور التجا کرنے لگی کہ امی نیاز میں کیا کمی ہے آپ کیوں اس کے لیے نہیں مان رہی، امی مجھے سو فیصد یقین ہے آپ کو کوئی شکایت نہیں گی، وہ بہت اچھا لڑکا ہے اور یہ بھی کہ وہ میری پسند ہے، میں چاہتی ہوں اسے امی، جب ردا نے چاہنے کی بات کی تو امی نے اپنے پاؤں پیچھے کھینچ لیے اور ردا اب فرش پہ نیم بےہوشی کی حالت میں پڑی تھی، امی نے کہا اس سے تمہاری شادی نہیں ہو سکتی، ہم کسی کو کیا منہ دکھائیں گے وہ لڑکا ہماری ذات کا نہیں اور ہم  اپنی ذات سے باہر کبھی بھی  شادی نہیں کرتے، اگر ہم کشمیریوں سے باہر شادی کریں گے تو ہمارے سارے کشمیری رشتہ دار  ہمیں تنہا چھوڑ دیں گے، ردا پھر اٹھی اور روتے ہوئے بولی، امی کوئی اپنی مرضی سے کسی خاص ذات میں تھوڑی پیدا ہوتا ہےہمارے مذہب میں ذات اور نسل کی تفریق حرام ہے، جب ہم ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں تو کیا برائی ہے، زندگی تو ہم دونوں نے ہی گزارنی ہے، امی بولی میں نہیں کسی مذہب کو جانتی، مجھے یہ عجیب و غریب تبلیغ نہیں کرو، میں نے جب کہہ دیا کہ ہم کشمیریوں سے باہر شادی نہیں کر سکتے تو نہیں کر سکتے اور تم بھی جتنی جلدی یہ بات سمجھ جاؤ اتنا ہی تمہارے لیے بھی بہتر ہے ورنہ بہت برا ہو گا تمہارے ساتھ،  لوگ تو ایسی نافرمان بیٹیوں کو قتل بھی کرتے ہیں، ردا نے جب یہ سنا تو زور سے  لفظ امی بول کے پھر  فرش پہ لیٹ گئی، 

ریحا اور امی دونوں باہر آ گئیں، کوئی آدھے گھنٹے کے بعد ردا اٹھی، وضو کیا اور  ظہر کی نماز پڑھی، ادھر ہی مصلے پہ طویل سجدے میں گر گئی، بیٹھی اور دونوں ہاتھ پھیلا کے اللہ سے روتے ہوئے دعا کرنے لگی کہ یااللہ کیا تُو مجھے میری پسند کا ایک انسان بھی نہیں دے سکتا، کیا تیرے خزانے میں کوئی کمی ہے میرے مولا، اپنی اس بندی کے ساتھ کیوں  کر رہے ہو ایسا، میرے اللہ، میرے ربا کوئی سبب پیدا کر، یا اللہ تُو مسبب الاسباب ہے اپنی اس بندی کے  لیے کوئی رستہ نکال میرے مولا تجھ سے فقط ایک شخص ہی تو مانگا ہے فقط ایک ہی شخص، مصلے پہ بیٹھ کے اپنے رب سے نیاز کو مانگنا تو ردا کا معمول بن چکا تھا،  ردا اور نیاز کی محبت کی عمر دو سال ہونے والی تھی،  تڑپ دونوں جانب ایک جیسی تھی، ادھر نیاز کی بھی یہی حالت تھی وہ بھی ردا کو اتنا ہی پسند کرتا تھا، نیاز کے گھر والوں کی طرف ذات کی کوئی پابندی نہیں تھی، وہ کہتے تھے کہ لڑکی کسی بھی ذات کی ہو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں بس بچے اپنی مرضی کریں اور محبت کے رشتے میں رہ کر اپنی زندگی گزاریں، ردا  کی ایک ہی بہن تھی وہ تو شروع دن سے ہی اس کی دشمن بنی ہوئی تھی، وہ تو پیار محبت کو ٹیشن اور خواہ مخواہ کا رپھڑا سمجھتی تھی، دو بھائی تھے ایک بھائی تو بیرون ملک تھا  دوسرا بھائی فوج میں ملازم تھا ردا نے چھوٹے بھائی جو فوجی تھا  سے درخواست کی کہ بھائی امی سے میری سفارش کریں تو اس نے کہا کہ ردا جو والدین فیصلہ کریں ،میں اس میں نہیں پڑوں گا، امی ابو جو فیصلہ کریں مجھے قبول ہے، برادری سے باہر کا  لڑکا ہے ذات کا بھی مسئلہ ہے پھر رشتہ داری بھی نہیں پہلے، نئے لوگ ہیں ، کیا پتہ کل کیا مسئلہ ہو، لٰہذا جو والدین فیصلہ کریں، ردا نے یہی بات اپنے والد کو بھی بولی، ردا چونکہ سب بہن بھائیوں میں سے چھوٹی تھی تو ابو نے حامی بھری کہ ہاں  تمہاری امی سے بات کروں گا، ابو نے جب امی سے بات کی  امی  تو غصے سے آگ بگولہ ہو  گئیں ساتھ ہی ابو کو ڈانٹ پلا دی کہ کشمیریوں سے باہر شادی کر کے رشتہ داروں کو کیا منہ دکھائیں گے،  اس دن جب ابو گھر سے باہر نکلے تو امی نے ردا کو تھپڑوں اور جوتوں سے مارا اور دھمکی دی کہ اگر اب تم نے مزید سفارشیں کروائیں یا تو تمہیں جان سے ہی مار دوں گی روز روز کے مرنے سے بہتر ہے تمہیں ٹھکانے لگا کے سکون میں ہو جاؤں یا صوبیدارے سے تمہیں بیاہ دوں گی، کان کھول کے سن لو دوسرا موقع نہ دینا مجھے،
ایک دن   نیاز کی امی بھی ردا کے گھر گئی رشتہ پوچھنے، خیر یہ سب پہلے طے ہوا تھا کہ نیاز کی امی رشتہ پوچھنے  آئے گی، سب نے خوش دلی سے قبول کیا، مہمان کی خوب تواضع کی، ردا کی امی  نے نیاز کی امی کو یہی بتایا کہ آپ اب آئے ہیں  تو سوچیں گے تو آپ کو فیصلے کے بارے میں اطلاع کریں گے، نیاز سوچ رہا تھا کہ اب کوئی رستہ نکل  آئے گا وہ بھی دل ہی دل میں دعا کرنے گا کہ مولا کوئی رستہ نکال،  نیاز کی امی جب چلی گئیں تو ردا کی ماں نے اپنے بھائی کو ساری بات بتائی کہ میں مشکل میں  ہوں آپ کی بہن ہوں میرا ہاتھ پکڑیں اس مشکل سے مجھے نکالیں،  جب ایک ہفتے کے بعد نیاز کی ماں نے فون کر کے رائے پوچھی تو ردا کی ماں نے کہا کہ ہم ذات  سے باہر اپنی بیٹی کو نہیں دے سکتے،  نیاز کو تو پہلے بھی علم تھا کہ ذات کا مسئلہ رکاوٹ ہے، اب جب نیاز کو اس کی ماں نے بتایا کہ ردا کی ماں نے جواب دے دیا کہ وہ کشمیریوں سے باہر نہیں کر سکتے، تو  نیاز  خود کو بے بس محسوس کرنے لگا، اپنے رب سے شکوہ کرنے لگا یا اللہ مجھے بھی کشمیری پیدا کر دیتا آج مجھے میری محبت مل جاتی،  

ماموں کا بیٹا ذیشان  بھی جوان تھا سو ماموں نے اپنی بہن سے اپنی طرف سے  بات  پکی کر دی کہا کہ  ٹھیک ہے میں ذیشان سے بات کرتا ہوں،  ذیشان پہلے ہی ایک شادی شدہ خاتون سے محبت کرتا تھا  جس سے وہ اس کی شادی سے پہلے محبت کرتا تھا اس بات کا ردا کو علم تھا، خیر ذیشان  کو بڑی مشکل سے قائل کیا گیا   چند دن کے بعد ردا کا ماموں مٹھائی لیکر گھر داخل ہوا ، تب ردا کو علم ہوا کہ اس کی ماں نے ذیشان سے اس کی نسبت طے کر دی ہے، ذیشان اور ردا دونوں کزن تھے لیکن دونوں میں کبھی بھی دوستی نہیں رہی نہ ہی ردا نے پہلے کبھی اس سے بات کی تھی،  ماموں آئے چلے گئے لیکن ردا پھر بھی نہیں مان رہی تھی، پھر ردا کی ماں  نے ردا کی ایک سہیلی  نگہت کو گھر بلایا کہ اس کا دماغ ٹھیک کرو، ذیشان کشمیری ہے اس کا کزن ہے کھاتے پیتے گھرانے سے ہے، یہ نیاز نیاز کرتی ہے وہ غریب سے لوگ ہیں پھر ہمارے قبیلے سے بھی نہیں ہیں، اس کو قائل کرو ورنہ میں بہت تپی ہوئی ہوں میں اس کو جان سے مار دوں گی، 

نگہت نے ردا کو سکول میں بلایا جہاں وہ ٹیچنگ کرتی تھی، وہاں  مزمل بھی تھی جو عمر میں دونوں سے بڑی تھی، دونوں نے ردا کو سمجھانا شروع کیا، مزمل چونکہ شادی شدہ بھی تھی اس نے ردا کو بولا کہ ماں باپ کی مرضی سے شادی کریں تو  کوئی گارنٹی بھی لیتا ہے، کوئی پیچھے کھڑا بھی ہوتا ہے اور ویسے  بھی زندگی حسین وعدوں کے بل بوتے  پہ نہیں گزاری جاتی بلکہ اس کے لیے شوہر کی مالی حالت بھی بہتر ہونا بہت ضروری ہے، ردا ایک مہینہ لگاتار سکول جاتی رہی ادھر اس کی ذیشان سے نسبت طے ہو چکی تھی،  اس دوران  ردا نے نیاز کو کہا کہ نیاز میں تمہارے بغیر مر جاؤں گی مجھے بھگا کے لے جاؤ، ہم اس ظالم سماج کی آنکھوں سے اوجھل اپنی ایک  الگ دنیا میں رہیں گے، نیاز آپ کو کھونے کے خیال سے بھی مجھے ڈر لگتا ہے،  نیاز نے کہا ردا میں بھگا کے لے جاؤں گا لیکن تم پہ ایک داغ لگ جائے گا، میں اپنی محبت کو بدنام نہیں کر سکتا، میں یہ نہیں سن سکتا کہ کل کوئی کہے ردا گھر سے بھاگ گئی تھی اور پھر شادی کی،  مجھے تمہاری عزت عزیز ہے،

نیاز اور ردا کا کچھ ہفتوں کے بعد رابطہ کٹ گیا، لیکن دونوں کے دل ایک دوسرے کے لیے محبت سے بھرپور تھے، دو ماہ کے بعد نیاز کے موبائل کی گھنٹی بجی فون اٹینڈ کیا تو ادھر ردا بات کر رہی تھی، بولی نیاز آج میری شادی ہوئے تیسرا دن ہے، مجھے تم بہت زیادہ یاد آ رہے ہو جو مل نہیں پاتا وہ دل سے نکلتا بھی نہیں، نیاز تم میری روح میں پیوست ہو چکے ہو ادھر نیاز زور زور سے چلانے لگا، اس دوران کال کٹ گئی، اور اب بارہ سال ہو گئے ہیں نیاز اور ردا ایک دوسرے کے لیے دلوں میں بھرپور محبت لیے  بغیر کسی رابطے کے والدین  کی ناک اور سماج کی روایات کی  خاطر اس دنیا میں موجود انسانوں  کے سمندر میں گم ہو کر  خاموشی سے اپنی اپنی زندگی گزار رہے ہیں، 

ڈاکٹر اعجاز کشمیری

   11
10 Comments

Arshi khan

24-Mar-2022 09:47 PM

Mashaallah

Reply

Manzar Ansari

24-Mar-2022 06:14 PM

Good

Reply

asma saba khwaj

24-Mar-2022 08:59 AM

لاجواب افسانہ

Reply